میچ نہیں ہماری شامت آئی
جب بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں تو کشمیر میں صورت حال برصغیر سے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔ میچ کے دوران سڑکوں گلیوں اور گھروں کے اندر اتنی کشیدگی ہوتی ہے کہ آپ بار بار کھڑکی کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں سیکورٹی والے تو نہیں آئے (یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکورٹی والے کیوں آتے ہیں)۔
انیس سو ستاسی میں بھارت پاکستان کے درمیان خاصی کشیدگی تھی البتہ کشمیر میں ابھی مسلح تحریک کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ مجال ہے کہ اُس وقت بھی آپ کمنٹری کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے چھکے یا چوکے پر سیٹی بجائیں (بھارتی کھلاڑیوں کی داد دینے پر پابندی نہیں تھی ) کیونکہ حکومت یا ان کے اہلکاروں کو پاکستان سے چِڑ تھی جس کے باعث ہر گلی، نکڑ اور چوراہے پر پولیس تعینات ہوتی، اس کے باوجود ڈاؤن ٹاؤن میں نصف شب کو پٹاخے سنائی دیتے اور ہم نیند میں ہی مسُکرادیتے۔
بعض کشمیری جنہیں کرکٹ کا جنون تھا گراؤنڈ میں میچ دیکھنا چاہتے تھے مگر'کشمیری لیبل' بھارت پاکستان کے لئے چونکہ نیک شُگن نہیں لہذا ریڈیو کمنٹری پر ہی اکتفا کرنا پڑتا اور پولیس کی موجودگی میں بیچارے داد بھی نہیں دے پاتے۔
پھر جب جنرل مشرف دلی میچ دیکھنے آئے اُس وقت کشمیر خون خرابے کے ایک لمبے دور سے گزر رہا تھا۔ بیشتر کشمیری طلبا بھارتی دانش گاہوں میں تعلیم حاصل کر نے لگے تھے، اُن میں یہ اُمید ابھری تھی کہ بھارتیوں کے ساتھ انٹیگریٹ ہوکر' کشمیری لیبل' سے چھُٹکارا مل گیا ہوگا اور انہیں بھی راجیو گاندھی اور جنرل مشرف کے ساتھ میچ دیکھنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ دلی میں پانچ چھ سال گزارنے کے باوجود 'کشمیری لیبل' بدستور قائم تھی بلکہ اتنی گہری ہوگئی تھی کہ وہ ہر وقت بھارتی پولیس کی نگرانی میں رہتے تھے گوکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں تھا۔
کرکٹ دیکھنے کا موقعہ تو نہیں ملا مگر بعض طلبا نے کامن ویلتھ گیمز دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ گیمز شروع ہونے سے پہلے ہی اُن کو گاڑی میں بٹھا کر دلی سے باہر کر دیا گیا کیونکہ وہ 'سیکورٹی کے لئے خطرہ' تھے۔
اب من موہن سنگھ اور گیلانی مل کر میچ دیکھیں گے مگر موپالی سے تقریباً پانچ سو کلو میٹر دور وادی میں موت کا سماں ہوگا کیونکہ سیکورٹی کی موجودگی میں آپ اُف بھی نیں کر سکتے گوکہ رات کے دوران دو طرح کے پٹاخے ضرور سنائی دیں گے۔ اگر پاکستان نے میچ جیتا تو پاکستان نواز اور آزادی نواز دونوں کشمیری چھتوں پر سیکورٹی کو چکمہ دیکر ضرور خوشی کا مظاہرہ کریں گے (کرکٹ کے وقت سبھی پاکستان نواز بن جاتے ہیں) اور اگر بھا رت نے بازی جیت لی تو سیکورٹی والے بنکروں اور کمیپوں میں پٹاخے چھوڑ کر اپنی خوشی کا اظہار کریں گے۔
ایسے وقت جب دونوں ملک کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے اگر اُن کے حکمرانوں کے ایک دوسرے کے بغل میں بیٹھ کر میچ کا مزا لینے سے برصغیر کے کروڑوں عوام کو کچھ دن سکون سے رہنے کا موقعہ ملے گا تو اس کو ضرور سراہنا چاہے البتہ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاست کے نیچے دبی تقریباً اسی لاکھ کی آبادی مسلسل گھبراہٹ، تشدد اور بمباری کی ذد میں پچھلے ساٹھ برسوں سے ایک ایک پل گِن گِن کرگزار رہی ہے۔اُس پر ستم یہ کہ ذہنی عتاب کا شکار آبادی سے میچ دیکھنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
کشميريوں کو سياسی لوگوں کے نعرے لے ڈوبے چاہے وہ مسلم ہوں يا ہندو ـ کشميری ايک پوری قوم ہے جسے يہ حق پيدائشی طور پر حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فيصلے خود کريں نہ کہ دوسرے لوگ ـ کسی کو چاہے پاکستان ہو يا بھارت کو يہ حق نہيں کہ کشمريوں کا حق آزادی ان سے چھين کر اپنے فيصلے ان پر ٹھونسےـ ميں قيدی کشمير کے غم ميں برابر کا شريک ہوں اور دعا گوہ ہوں کہ وہ اپنی زندگی کے فيصلے خود کرنے کی آزادی پا ليں
پاکستانی کون سي جنت ميں رہتے ہيں ، نعيمہ مہجور صاحبہ - کرکٹ دھيان بٹا ديتا ہے - ورنہ کيا حاکم کيا محکوم ، يہاں بھی باہم بيزاری کا ماحول ہوۓ زمانہ ہوگيا -
انشااللہ پاکستان یہ میچ جیتے گا پاکستانی اور کشمیری عوام کی دوعاییں ٹیم کے ساتھ ھیں
میرے خیال میں کشمیر کی اپنی ٹیم بنا کر اسکا میچ کروادینا چاہیے۔
بهت خوب بس...تحرير اب خوب تر هوتي هين
لکھنے سے قاصر ہوں کیونکہ زباں بیان نہیں کر سکتی ہے کیونکہ اگر میں بیان کروں بھی تو صدیاں گزر جائیں گی ظلم و ستم کی داستانیں لکھتے لکھتے ۔
و۔
نعيمہ جي! بات يہ ہے نا کہ ہم پر اس قسم کا نام نہاد وجد بھی طاری ہوجاتا ہے۔اگر کھيل کو کھيل کی حد تک رکھا جائے تو ايسا نہ ہو مگر جب يہ دو روايتی حريف مد مقابل ہوں تو معاملہ عزت و موت کا بن جاتا ہے۔سيانے کہہ گئے ہيں نا کہ جب دو حريف اکھاڑے ميں اترتے ہيں تو ايک جيتتا ہے اور دوسرا ہارجاتا ہے۔جو اچھا کھيلے وہ جيتے گا اور اس کی تعريف کھلے دل و دماغ سے کرنی چاہييے۔ يہاں تو الٹا ہے حالت يہ ہوجاتی ہے کہ کئی لوگ اس بارے ميں سنجيدہ ہوکر دعائيں مانگتے ہيں کہ ہماری ٹيم شکست سے دوچار ہوجائے ورنہ کہيں خون کی ندياں نہ بہہ جائيں۔کھيل کو تو پيار محبت کے فروغ کا ذريعہ ہونا چائيے نا کہ نفرت پھيلانے کا۔ايسے ہی موقعہ کے لئيے کسی نے کيا خوب کہا ہے نہ کہ ہارے بھی تو بازی مات نہيں! مگر کوئی اس کی اصل روح کو تو سمجھے نا تو پھر ہی بات بنے گی ورنہ دو طرفہ جہاد و فساد جاری رہے گا۔خدا کرئے يہ روش جلد ختم ہو۔آمين
کرکٹ ڈپلوميسی ميری تو سمجھ سے باہر ہے منموہن سنگھ جيسے ذہين فطين سنجيدہ اور بردبار آدمی سے اس طرح کی حرکت کی توقع نہيں تھی -پتہ نہيں کيوں انہوں نےدعوت نامے ارسال کرنے کی احمقانہ غلطی کی ہے -آپ کے کرب کو ميں بخوبی سمجھ سکتا ہوں اسی اور نوے کی دہائی میں ہند پاک کو ليکر خوب جھگڑے فساد ہوئے يہ محض کشمير ہی کی بات نہيں ہے ايسا جنوب ميں بھی ہوتا رہا ہے يہاں ہر چھوٹے بڑے شہر ميں ہند پاک کو ليکر خوب فساد مچتے مگر اظہرالدين کی آمد کے بعد ٹرينڈ بدلا اور اب نئی نسل ميں شعور و آگہی نے اس سارے معاملے ہی کو ٹٌنڈا کرديا ہے آپ کو تعجب ہوگا کہ جب کوارٹر فائنل ميں انڈيا نے آسٹريليا کو شکست دی تو ميں يہ جاننے کے لئے اپنے دفتر کی دسويں منزل ميں پہچا تھا کہ ديکھيں آتش بازی کا بھی مزہ لوٹا جائے مگر قسم لے ليجے جو ايک بھی پٹاخہ پھوٹا ہو يا تو لوگ بے حس ہيں يا مصروف يا پھر پٹاخوں کی مہنگائی کی مار سے بے بہرہ کيوں آپ کو کيا لگتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میرا ایک دوست ہے جو ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ کشمیر وہ رسی ہے جس کے ایک سرے پر پاکستان اور دوسرے سرے پر بھارت کے زور آزما کھینچا تا نی کی مشقیں کیا کرتے ہیں. اور نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تلوں کا تیل ہمیشہ کشمیریوں کا ہی بہتا ہے. وہ کہتے ہیں نہ کہ گھر میں اگر کوئی یتیم پلتا ہو تو اگر اسے زیادہ توجہ دو تو وہ سوچتا ہے کہ میں یتیم ہوں اسی لیے مجھ پر رحم کھایا جا رہا ہے اور اگر اسے کم پیار دیا جائے تو بھی سوچتا ہے کہ یتیم ہوں نہ اسی لیے...
کشمیر بھی شاید اسی حالتٍ زار میں ہے. باقی کرکٹ تو اس کی ہمیں نہ سمجھ آئی نہ سمجھ آئے گی ہی. کیوں کہ ہمیں کرکٹ (پاکستانیوں کو) جیسے مذہب کی طرح مل گئی ہے. جسے کبھی سیاست میں تو کبھی دشمنی میں کھیلا جاتا ہے. اب کی بار ہی دیکھیے، پورا اسلام جیسے کرکٹ کے لیے وقف ہوگیا ہے... پانچ لاکھ دعائوں کی مھم چلی ہوئی ہے...
"مگر'کشمیری لیبل' بھارت پاکستان کے لئے چونکہ نیک شُگن نہیں"
@ بی بی!۔
بھارت کے لئیے تو کشمیری لیبل نیک شگن نہیں مگر آپ نے اپنی تحریر کے اس جملے سے پاکستان کے بارے ایک غلط تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ کشمیری لیبل ہو یا کشمیری، پاکستان اور پاکستانیوں نے کبھی کشمیریوں کو غلط یا "بد شگون" نہیں سمجھا۔ جیسا کہ پاکستان میں یہ ایک عام حقیقت ہے۔ کہ عام پاکستانیوں کی طرح کشمیری جہاں چاہیں آجا سکتے ہیں اور کسی بھی اسٹڈیم میں کوئی سا بھی میچ دیکھ سکتے ہیں۔ کسی بھی فیورٹ ٹیم کے حق میں نعرے بازی کر سکتے ہیں۔ اور یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔