| بلاگز | اگلا بلاگ >>

اللہ اور ترقی دے !

اصناف:

وسعت اللہ خان | 2010-08-06 ،12:16

جب تک حکومتِ پاکستان اور اس کے ادارے نو آبادیاتی دور کی غلامانہ ذہنیت میں رنگے عمل داروں کے ہاتھ میں تھے، تب تک یہاں ہر ایک کی زندگی عذاب میں تھی۔

جہاں چار لوگ ہلاک ہوتے کرفیو لگا دیا جاتا اور لاکھوں لوگ گھروں میں محصور ہو جاتے۔ بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم مل جاتا جس سے خوف و ہراس کی فضا مزید گہری ہوجاتی۔

جلوس مشتعل ہو کر املاکی توڑ پھوڑ پر اتر آتا تو پولیس سیدھی گولی چلا دیتی اور پندرہ بیس لوگ موقع پر ہی ہلاک ہو جاتے اور اس کے بعد گرفتاریوں اور چھاپوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ہڑتال کی کال ناکام بنانے کے لیے زبردستی دوکانیں کھلوائی جاتیں اور چند دنوں بعد سماج پھر جبریہ امن کے سائے میں سانس لینے لگتا۔

شکر ہے نوآبادیاتی ذہنیت والے عمل دار رفتہ رفتہ رخصت ہوئے۔ اب ملک ہر معنوں میں آزاد اور جا بے جا سرکاری مداخلت سے پاک ہے۔

سو لوگ بھی مرجائیں تو کرفیو نہیں لگتا۔ کیونکہ یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ کرفیو کا نفاذ قاتل اور مقتول کی انفرادی آزادی سے متصادم ہے۔

نوآبادیاتی ذہنیت کے دور میں فوراً ایف آئی آر کٹ جاتی تھی۔ اب ایف آئی آر کٹوانے والے کی گردن کٹ جاتی ہے۔ انصاف ملے نہ ملے مرنے والے کے لواحقین کو معاوضے کا چیک ضرور مل جاتا ہے، بھلےکیش ہو نہ ہو۔

اب لوگ لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی کا نعرہ بھی نہیں لگاتے۔ کیونکہ لاٹھی متروک ہے اور پولیس اور رینجرز کے گشتی سپاہیوں کی بندوقوں کے میگزین خالی ہیں۔ ویسے بھی اسلحہ ہما شما کی دسترس میں ہو تو لاٹھی گولی کی سرکار بھلا کہاں۔

اب مرنے اور مارنے والوں کی قومیت، علاقہ، فرقہ اور رنگ بھی ظاہر نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ایسی تفصیلات قومی یکجہتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

اب پہلے کی طرح اخبارات ہنگامی ضمیمے بھی نہیں نکالتے۔ کیونکہ ہاکر کی آواز ٹی وی چینلز کی آوازوں تلے کچلی جاچکی ہے۔ سب کچھ براہ راست دکھایا جاتا ہے۔ جو ہو رہا ہے وہ بھی، جو نہیں ہو رہا وہ بھی ۔

پہلے لوگ سسک سسک کر ہی سہی مگر جینے کی کوشش کرتے تھے۔ مرنے سے ڈرتے تھے۔ اب لوگ بہادر ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے طویل المعیاد منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ صرف آج میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور سرِ شام گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر اپنی واپسی کی خوشی سے تمتماتے والدین کی بلائیں سمیٹتے ہیں۔

شکر ہے ہم ایک طویل گھٹن زدہ نوآبادیاتی ذہنیت والے دور سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لینے کے قابل ہوئے۔ اللہ اور ترقی دے۔۔۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:44 2010-08-06 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘کچھ اور بھی دے گیا لطف
    انداز تمہاری گفتگو کا‘

  • 2. 13:26 2010-08-06 ,علی گل،سڈنی :

    بدلتا ہے رنگ آسماں کيسے کيسے
    جب انسان کی قيمت ہی کچھ نہ رہ جائے اور وحشيوں کی تعداد ميں اضافہ ہو جائے تو پھر کرفيو کس کو ڈرانے کے ليے لگايا جائے؟ نيز کرفيو لگانے والے ہی مارے جائيں تو سرکار کيا کرے گي۔ پہلے کسی ہنگامی خبر پہ زميمے چھپتے تھے تو اب زميمہ چھپے تو خبر لکھی ہو کہ بھئی آج کچھ نہيں ہوا کچھ نہيں ہوا۔

  • 3. 13:45 2010-08-06 , رضا :

    وسعت اللہ صاحب ، اگر آپ ساٹھ کی دہائی کے شاہد ہيں تو شائد اتفاق کريں کہ اس دہائی کے ساتھ ہي اس معاشرے ميں امن، سکون اور اعلٰي اقدار کا خاتمہ ہو گيا تھا۔ عوامی دور کے نام پر پگڑی اچھال کلچر روشناس ہوا جس نے بداخلاقی کو آزادیِ اظہار کا نام دے کر معاشرہ تہہ و بالا کر ڈالا۔ وہ دن آج کا دن، تنزل کا يہ سفر جاری و ساری ہے۔ ہر نيا دور گزشتہ سے بدتر ثابت ہوا۔ يہ قوم ابھی ان تجربات کی اہل نہ تھی۔ بندر کے ہاتھ استرے والا معاملہ ہو گيا۔ يہ ايک دو دہائیاں گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ ملک امير محمد خان جيسے حکمران ہی کی اہل تھي۔ جس کے دور ميں سب تير کی طرح سيدھے تھے اور پرندہ پر نہيں مار سکتا تھا۔

  • 4. 13:45 2010-08-06 ,Abbas Khan :

    کچھ بدخواہ اس ترقی اور آزادی کو چھيننا چاہتے ہيں۔ ليکن ہماری پارليمنٹ اور عدالتيں ان کی کوششيں کامياب نہيں ہونے ديں گی۔

  • 5. 13:53 2010-08-06 ,يوسف حسين :

    آج کل آپ کے بلاگز پڑھ کر دل دکھ جاتا ہے ِ لگے رھيے

  • 6. 14:05 2010-08-06 ,شاہسوار بلوچ :

    واہ وسعت بھائی واہ!
    بہت اعلیٰ فرماتے ہیں آپ۔ آپ سے میرا ایک سوال ہے، یہاں (پاکستان) کے سارے لوگ، بشمول میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہیں کہ کشمیر کو وہاں کے لوگوں کی خواہش کے مطابق ہندوستان سے آزادی ملنی چاہیے جبکہ یہی لوگ بلوچ عوام کی خواہش کے مطابق بلوچستان کی آزادی کے بارے میں مخالف سوچ کیوں رکھتے ہیں؟

  • 7. 15:15 2010-08-06 ,msood ul hassan :

    وسعت صاحب جس کی لاٹھی اس کی بھينس۔ آگے۔۔۔

  • 8. 15:37 2010-08-06 ,MATLOOB MALIK, UK :

    ہم وہ بد بخت قوم ہیں جو ہر دفعہ قاتلوں، لٹیروں، جاگیرداروں اور بدمعاشوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں اور پھر چند روز بعد ان کے ظلم و جبر سے تنگ آکر رونے بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ جب تک وڈیروں اور جاگیرداروں کو اس ملک میں کوئی نکیل ڈالنے والا پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک حالات بد سے بدترین ہوتے چلے جائیں گے۔ بہرحال ہم اللہ رب العزت سے پر امید ہیں کہ سب اچھا ہو گا اور سب مشکلات اور پریشانیاں جلد دور ہو جائیں گیں۔

  • 9. 16:44 2010-08-06 ,Dr Alfred Charles :

    وسعت بھائی! اللہ معاف فرمائے يہ تو معکوس ترقی ہوئی نا اور ايسی اخلاقی پستی پر تو جتنا بھی افسوس کيا جائے کم ہے۔

  • 10. 19:42 2010-08-06 ,Abdul Waheed Khan, Birmingham , UK :

    آپ نے بجا فرمايا ہے۔ حالات بہت دگرگوں ہيں۔ ابھی حاليہ دنوں ميں ايک مہينہ وہاں گزار کر آيا ہوں اور بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انسانيت کی قدر و قيمت اور انسانی عزت و تکريم ماضی کا حصہ ہو چکے ہيں اور دولت کی دوڑ اور ہوس ہر سطح پر معاشرے ميں حاوی ہو چکی ہے۔ اجتماعی سوچ کا فقدان اور ذاتی و مفاداتی سوچ نے پورے معاشرے کو بری طرح متاثر کر کے رکھ ديا ہے۔ نہ کسی کی جان و مال محفوظ ہے اور نہ کسی کی عزت۔ جس کے پاس جتنی زيادہ دولت ہے چاہے ناجائز ذرائع سے ہی کيوں نا اکٹھی کی ہوئی ہو وہ اتنا زيادہ معزز و معتبر بن گيا ہے جس کی وجہ سے وہاں زندگی انہی کی ہے جو جتنے زيادہ زور آور ہيں اور عام شريف آدمی کا کوئی پرسان حال نہيں۔ ميرٹ کے نام پر فراڈ کیے جاتے ہيں۔ غريب آدمی کے لیے نہ تعليم ہے نہ علاج، نہ روزگار ہے تو نہ انصاف۔

  • 11. 0:23 2010-08-07 ,muzamil hassan :

    عوام کوچاھيےنااھل حکرانوں کي بجاے کامياب بلوائيوں سے اپنی جان اور مال کی حفاظت کا سوداکرليں

  • 12. 1:26 2010-08-07 ,سید طاہر شاہ چاغی پاکستان :

    جناب اس ملک کا المیہ رہا ہے کہ اگر کوئی قانون کی ہاتھوں پکڑا گیا ہے تو وہ باعزت بری ہو کر ملک کا صدر بنا ہے۔ اگر کوئی دہشت گردی کے الزام میں پکڑا گیا تو وہ بعد میں مفتی بنا ہے اور اگر کسی پر قتل کا الزام ہے تو وہ وکیل اور جج بنتے ہیں۔ آخر بیچارے قانون نافذ کرنے والے کس کو پکڑیں۔ بس غریبوں نے مرنا ہے اور صحافیوں نے لکھنا ہے۔

  • 13. 1:42 2010-08-07 ,نگینہ بلوچ زاہدان :

    جب قومیں آزادی چاہتیں ہیں تو ایک جان ہو جاتی ہیں ناکہ ایک گھر میں اگر تین بھی تو تین راستے پر اور اگر ایک صوبہ ہے تو تین قومیں اور سب کی الگ الگ سوچ، ذرا سوچیں تو ضرور۔

  • 14. 3:47 2010-08-07 ,Qazi Muhammad Yasir :

    ’اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
    وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘

  • 15. 6:25 2010-08-07 ,وحیداللہ آفریدی ......... خیبرایجنسی :

    وسعت اللہ صاحب! آج تو آپ نے بہت میٹھے انداز میں انتہائی کڑوا سچ تحریر کیا ہے۔ انتہائی تعجب سے دیکھ رہے ہیں کراچی میں جاری صورتحال کو اور اس میں ٹیلیویژن چینلز والوں کا بھی کیا کہنا ہے۔ صرف مار دیا اور مرگیا کی خبریں چل رہی ہیں۔

    جناب! یہ انتہائی خوفناک اور صبرآزما صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں حکومت تو اس کو اللہ تعالٰی کی طرف سے آزمائش قرار دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔
    آپ نے اپنے بلاگ میں جس خوبصورت انداز میں توجہ دلائی ہے کہ نو آبادیاتی اور غلامانہ سوچ سے نکل کر آزاد ہوگئے ہیں تو یہ انتہائی پریشان کن امر ہے کہ نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں حکومت کی عملدار ختم ہو کر رہ گئی ہے اور کراچی جیسی صورتحال کو تو حکومت بالکل محسوس ہی نہیں کرتی جو ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔ اللہ تعالٰی سارے ملک پر خصوصی فضل کرے۔ آمین ثم آمین

  • 16. 8:53 2010-08-07 ,Athar Massood Wani :

    جب ہم پر براہ راست غیروں کی حکومت تھی تو خطے کے مفادات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ہماری ذمہ داری بھی سبھالنی پڑتی تھی۔1947ء میں ہمیں آزادی کا موقع تو ملا لیکن افسوس پاکستان کو قومی فوج نہ مل سکی بلکہ اسی منظم قوت کے ذریعے پاکستان کو قابو میں رکھنے کا مستقل بندوبست بھی کر دیا گیا۔ غیروں نے براہ راست حکمرانی کے بجائے بلواسطہ حکمرانی کا طریقہ آزمایا، اس سے انہیں ہماری ذمہ داری بھی نہیں اٹھانی پڑتی۔ ہماری ہی فوج کے ذریعے وہ ہم پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سیاست دان فوج کے غلام ہیں، حکمرانوں کے غلاموں کی حکومت عوام کے لیے بدترین صورتحال پیدا کرتی ہے۔ لہذا فوج جو ’غیروں‘ کی طرف سے ملک کی کرتا دھرتا ہے، وہی حکمرانی کرتے ہوئے عوام کے سامنے رہے تو بہتر ہے، حاکموں کے غلاموں کی حکومت عوام کے لیے نہایت تکلیف دہ اور بدترین نتائج پر منتج ہوتی ہے۔

  • 17. 9:54 2010-08-07 ,Azeem :

    وڈیروں اور جاگیرداروں کا ذکر کرتے ہوئے آپ لوگ اپنے تعلیم یافتہ آمروں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ ساری گالیاں پرائیویٹ آمروں کو پڑتی ہیں اور سرکاری آمروں کا ذکر فٹ نوٹ میں کیا جاتا ہے۔ شہاب نامہ آپ نے شاید نہ پڑھا ہو لیکن کسی نہ کسی سرکاری دفتر میں جانے کا اتفاق تو آپ کو بھی ہوا ہوگا۔ میں بیوروکریسی کا لفظ استعمال نہیں کروں گا کیونکہ یہ اصطلاح اب کثرتِ استعمال سے بے معنی ہو گئی ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ کے تمام بڑے سانحوں میں ان تنخواہ دار آمروں کا کردار کلیدی نوعیت کا رہا ہے۔ سیاست دان تو ’عوامی‘ ہوتے ہیں اور عوام ’کالانام‘ کہلاتے ہیں، ان بے چاروں کا کیا دوش

  • 18. 10:09 2010-08-07 ,Riffat Mehmood :

    قوم ميں سياسی شعور کا فقدان اس ملک کا الميہ ہے۔ سياسی بازي گير سرکس لگا کر لوگوں کو اليکشن ميں حيران کن کرتب دکھا کر مسحور کر کے ووٹ ڈلوا ليتے ہيں۔ پھر عوام ان کو پورے وقت ڈھونڈتے رہ جاتے ہيں اور مسائل ميں کچھ اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ پرانے لوگوں کے قصيدے بڑے فخر سے کر کے ان کی مثال ديتے ہيں ان کے اصل کردار سے نابلد ہوتے ہيں۔ اگر وہ اچھی بنياد رکھتے تو انفرااسٹکچر اتنا بوسيدہ اور شکستہ نہ ہوتا کہ ہمارے ٹوئن ٹاور کا ايک برج زمين بوس نہ ہوتا۔ اس دور ميں ذرائے ابلاغ اور ميڈيا سنسرڈ خبروں کی اشاعت کرتا تھا۔ مغربی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ کے نزديک تھی آج اس خطے کی آبادی 16 کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے۔ اس دور کی لوٹ مار، مراعات اور قبضوں کے چرچوں پر کتابوں کی کتابيں لکھی جا چکی ہيں۔ اب انہی کی دوسری نسل ملکی افق پر بھی نظر آتی ہے۔ قانون کی حکمرانی نہ ہونا يا عدليہ کا مصالحانہ رويہ ان کا محاصبہ کرنے سے قاصر رہا۔ اس لیے آج ہم ہر سطح پر آلودگی کا شکار ہيں۔ وہی کرپٹ لوگ جنہوں نے اب گروہوں کی شکل اختيار کر لی اب بھی ويسے ہی حربے آزما کر اس نظام ميں رخبہ اندازی کر رہے ہيں۔ ايک دوسرے کی مدد اور معاونت بھی کرتے ہيں۔ اس کی مثال ميثاق جمہوريت، اين آر او اور جعلی ڈگرياں اور معنی خيز پارٹيوں کا رويہ۔

鶹 iD

鶹 navigation

鶹 © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔