| بلاگز | اگلا بلاگ >>

’برصغیر غریب ہوگیا‘

حسن مجتییٰ | 2007-08-25 ،16:09

عینی میں امراؤ جان ادا اور قلندر ساتھ ساتھ رقص کرتے تھے۔
20070821121509quratulainhyder1_203x152.jpg

’یہ سرخ کھپریلی چھتوں اور لکڑی کی جافریوں والے برآمدوں کے گھر قرت العین حیدر کے ناولوں میں ہوا کرتے ہیں‘۔ کئی سال ہوئے کہ میں نے کراچی میں پاکستان ائير فورس کی کورنگی بیس کے فلیٹوں کے بارے میں وہاں رہنے والے اپنے ایک دوست سے پوچھا تھا۔

’یہیں کہیں قرت العین نے میرے ابا کو تھپڑ مارا تھا‘ میرے دوست نے کہا۔ یہ انیس سو پچاس کے شروعاتی سالوں کا زمانہ تھا جب کراچي میں ماری پور بیس کی ریتلی اور ساحلی پگڈنڈیوں پر قرت العین حیدر اپنی ہمجولیوں اور ہمجولوں کیساتھ بائیسکل چلایا کرتی تھیں اور کسی غلط فہمی یا خوش فہمی یا کسی اور وجہ سے میرے دوست کے ابا جو کہ اس زمانے میں زیر تربیب یا جونیئر پائیلٹ ہوں گے کو تھپڑ مار دیا تھا۔ کس نے جانا تھا کہ تھپڑ مارنے والی لڑکی کل برصغیر میں اردو ادب کی لتا منگيشکر یعنی قرت العین حیدر بن جائيں گی اور ان کا ناول ’آگ کا دریا‘ برصغیر میں اردو فکشن کا ’مہا بھارت‘ کہلائے گا۔

زندگی عینی کا ناول اور افسانہ اور ہم سب انکے کردار تھے۔ مجھے یاد ہے جب نومبر کی ایک خزاں کی شام میں اور میرے دوست روہڑی کے ریلوے سٹیشن سے کراچی ایکسپریس میں کراچی کے لیے سوار ہوئے تھے تو حيدر آباد سندھ سے ایک خوبصورت اور ذہین لڑکا پرشوتم بھی چڑھا تھا۔ پرشوتم واقعی گوتم نیلبمبر لگتا تھا۔ وہ انقلاب اور آدرش کی باتیں بڑے یقین اور ایمان سے کیا کرتا تھا۔ تب کئي دنوں بعد میں نے جو عینی کا پہلا ناول آگ کا دریا پڑھا وہ پرشوتم سے مستعار لیا تھا جسکے صفحات پر جابجا اس نے عینیت پسندی، مابعد الطبییات اور جدلیات کی بحث چھیڑ رکھی تھی۔ کئي دن ہوئے کہ پرشیوتم نے ناکام محبت کے مارے سوئیڈن میں خودکشی کرلی۔ محبت ہوتی ہی ناکام چيز ہے بھئی۔

قرت االعین حیدر برصغیر میں اردو ادب کی ڈیڑھ قلندر تھیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ان کے مرنے سے اردو ناول مرگیا ہے۔ برصغیر کالی داس کے بعد عینی کے جانے سے ایک دفعہ پھر غریب ہوگیا ہے۔

ستاہرن جیسا ناول لکھنے والی عینی نے میرے دوست منیر شاہ کو بتایا تھا کہ وہ کارو کاری کی رسم پر ناول لکھنا چاہتی تھیں۔ ’میں نے تو سنا ہے فلاں راشدی صاحبان نے بھی اپنی کسی عزیزہ کو غیرت کے نام پر قتل کیا تھا‘۔ منیر شاہ کو عینی نے بتایا تھا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:26 2007-08-25 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    حسن مجتبٰی صاحب
    آپ نے قرات العين حيدر کو جيسا خراج عقيدت پيش کيا اس پر شکريہ۔ اب سمجھ آئی ان کی واپسی کی وجہ اگر وہ يہيں رہتيں تو شايد ڈاکٹر شازيہ والا قصہ بھی نہ ہوتا۔

  • 2. 12:05 2007-08-26 ,آصف امير خان :

    قرۃالعين حيدر برصغير کی معلوم پانچ ہزار سالہ تاريخ ميں چند ناموں ميں سے ايک۔ ٰکالی داس، ٰقرۃالعين حيدر، پانيني وغيرہ وغيرہ۔ عينی ايک عہد تھا کہ تمام ہوا۔

鶹 iD

鶹 navigation

鶹 © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔