ارباب رحیم اور سلمان رشدی
سندھ کے وزیر اعلی ارباب غلام رحیم مصنف و ناول نگار سلمان رشدی کو ملکہِ برطانیہ کی طرف سے دیئے گئے ’نائیٹ ہوڈ‘ یا سر کے خطاب کو احتجاج کا بہانہ بنا کر کبھی واپس نہ کرتے اگر بینظیر بھٹو کے دادا سر شاہنواز نہیں کہلاتے ہوتے۔
انکی نام نہاد سامراج دشمنی بھی بھٹو دشمنی پر مبنی ہے۔ وگرنہ انکی وزارت میں شامل ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو کے عظیم ابا محمد ایوب کھوڑو کو ملے ہوئے ’خان بہادر‘ کے خطاب کا انہوں نے ذکر تک نہیں کیا۔
(بینظیر بھٹو بھی پاکستان جیسی گردش رنگ چمن میں پھنس کر رہ جانیوالی بلبل ہیں۔) محترمہ نے فرمایا، ’ ملکی مفاد اصولوں سے مقدم ہیں‘ یعنی کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے بہتر ہے۔
مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلی سندہ نے سلمان رشدی کی کتاب کیا کوئی بھی کتاب گزشتہ بیس سال سے نہیں پڑھی ہوگي۔ البتہ انکو ایسا ہیرو بننے کا مشورہ دینے والے انکے مصاحبوں میں سے ایک آدھ ایسے بھی ہیں جو کبھی رشدی کے مداح ہوا کرتے تھے یا کم از کم اسکی کتابیں اپنی الماریوں میں سجائي ہوئي ہوتی تھیں۔
اکیسویں صدی کے پاکستان میں فوجی حکمرانوں کی کورنشیں بجا لانے اور بیسویں صدی کی تیسری دہائي میں سندھی وڈیروں یا دیسی جاگیرداروں، خانوں، میروں، جاموں، پیروں کے انگریزوں کا ٹوڈی ہونے میں کوئي زیادہ فرق نہیں۔
سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ نے اعزاز انگریز حکمرانوں کی چمچہ گیری پر نہیں بلکہ انکی تحاریر و تصانیف پر دیا ہے۔
تاریخ میں یہ کوئي تعجب خيز بات نہیں ہوگي جب کچھ عشروں سالوں بعد ارباب کے پوتے نواسے بھی انکو پاکستان کے جمہوریت کش فوجی حکمرانوں کی جئے گانے پر ملے ہوئے انعامات و اکرامات واپس کررہے ہونگے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی، افضل ساہی ہوں یا ارباب اختیار سندھ یا ابن ماڈل ڈکٹیٹر ایشیا اعجاز الحق، مشرف کے روشن خیال پاکستان کے عظیم و نادر نمونے ہیں۔
میرے ایک دوست نے کہا، ’کوئی ہنسے یا روئے کہ ایک ایسا ملک جہاں جنرل وردی اور بندوق کے زور پر، ایک بینک مینیجر کٹھ پتلی وزیر اعظم حکومت میں ہوں اور ملک چیف جسٹس انصاف کے حصول کیلیے سڑکوں پر مارا پھر رہا ہو‘۔
کاش کہ پاکستان میں جنریلی طوائف الملوکی پر کوئی گبریل گارشیا مارکيئز ہو یا سلمان
رشدی جیسا لکھاری کوئی ناول لکھ سکے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جہاں تک مجھے پتہ ہے پرانے زمانے میں انگلش سرکار سر کے خطاب کے ساتھ جاگیریں بھی دیا کرتی تھیں۔ کیا ارباب صاحب اس کو بھی واپس کرنے کی کوشش کریں گے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ ارباب رحیم صرف میڈل اور خطاب ہی کیوں واپس کر رہے ہیں۔ ان کے بزرگوں کو شاید زمینیں بھی تو ملی تھیں۔ کیا وہ ان زمینوں کو بھی ملکہ یا حکومت پاکستان کو واپس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حسن صاحب آپ نے جہاں پاکستان کے کرتا دھرتاؤں کی درگت بنائی ہے وہاں منصف ہوتے کُچھ تو منصف بنتے اور رشدی کے بارے ميں بھی لکھتے۔ کيوں کہ يہ صحيح ہے کہ عوام کے چُنے نمائندے اگر صرف سياست کے نشے ميں ڈوبے ہوں تو ان کو بُرا کہنا چاہیے مگر صحيح يہ بھی تو نہیں کہ اگر کوئی اچھا لکھاری کسی کے مذہب کو ہٹ کرے اور ہم اُس کی صفائی يوں پيش کريں کہ اُسے خطاب فلاں چيز پر ملا۔ بُرا کام بُرا ہی ہوتا ہے چاہے اُسے لاکھ چھُپايا جائے۔
حسن صاحب کچھ کام لوگ دُنيا دکھاوے اور دل پشوری کے لیے بھی کر ليتے ہيں۔ شايد ايسے ہی ارباب صاحب نے ذرہ نوازی کی ہے يہ اور ہم سب اس کو اپنے ہی حساب سے ديکھتے ہيں۔ وہی مثال ہے کہ قبر کا حال تو مُردہ ہی جانے يعنی ارباب صاحب کے دل کے حال وہی جانيں۔ چھوڑيں اس قصّے کو۔ اور بھی غم ہيں زمانے ميں ان باتوں کے سوا۔
(فيض سے معذرت خواہ ہوں)
ارباب صاحب تو بہتی گنگا ميں ہاتھ دھونے کی کوشش کر رہے ہيں۔
اگر صرف ادبی کسوٹی پر پرکھا جائے تو مجھے سلمان رشدی کی تحریروں میں کوئی ایسی خصوصیت نظر نہیں آتی جس پر انہیں سر کے خطاب سے نوازا جائے۔ یہی بات کئی انگریز مصنفین نے بھی کہی ہے اور مستقبل میں یہ بات واضح ہو جائے گی۔ کیا سلمان رشدی کے ادبی مقام پر کسی اچھی تنقیدی کتاب میں کوئی بحث ہوئی ہے؟ کیا سر کا خطاب ادبی بنیاد پر دینے کے لیے ادباء کی کوئی رائے لی گئی ہے؟ ملکہ برطانیہ کا ایسا کوئی ادبی مقام نہیں اور وہ ذاتی طور پر ادبی تحریروں کو نہیں پرکھ سکتیں۔
باقی رہا انگریزوں کی نوازشات واپس کرنے کا سوال تو اس کے ساتھ ساتھ ان کی دی ہوئی جاگیریں بھی حکومت پاکستان کو واپس کر دینا چاہئیں۔
برصغیر کی تاريخ خان بہادروں اور سروں سے بھری پڑی ہے۔ اگر کوئی سر يا خان بہادر سرکار سے ناراض بھی ہو جائے تو سرکار ناراض نہیں ہوتی اس وقت تک جب تک وہ سرکار کے سائے کو نعمت خداوندی سمجھتا ہے کيوں کہ سرکار کا سايہ مانند والدين ہوتا ہے اور بچہ نادانی ميں اکثر ضد کرتا ہے۔