| بلاگز | اگلا بلاگ >>

عورت مذہبی نہیں

نعیمہ احمد مہجور | 2007-06-27 ،11:26

دنیا میں اگر مذہبی انتہا پسندی ہے تو اسکی تمام ترذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے کی عورت کو ابھی تک مکمل فیصلہ سازی کا موقعہ نہیں دیا گیا ہے۔
blo_nayeema_indopak_woman20.jpg

بھارت اور پاکستان کی سینکڑوں عورتوں سے بات کرکے مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی کہ اس خطے میں مذہبی جنونیت میں عورت کا کوئی کردار نہیں اور نہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔

عورت اپنے بچے کو اچھا انسان بنانا چاہتی ہے وہ چاہے ہندو ہو مسلمان یا عیسائی۔ اسکے دووھ میں مٹھاس ہوتی ہے زہر نہیں۔
برصغیر کی عورت پیار اور محبت کا مجسمہ ہے اور اس کا مذہبی جنون سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں حالانکہ وہ مذہبی انتہا پسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے لے کر موجودہ حالات تک اس نے کبھی بیٹے، کبھی بھائی یا کبھی شوہر کو کھودیا مگر وہ سینہ کوبی کے سوا کچھ نہیں کر پائی۔ وہ اس دشمنی کو ختم کرنے کے لیے چیخی چلائی مگر کسی نے اس کی بات کو اہم نہیں سمجھا۔

بھمبر کی حافظہ نے اپنے پورے خاندان کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے جنگوں میں لڑتے لڑتے مرتے دیکھا مگر وہ اب بھی کہتی ہے کہ سرحد کے اس پار دوسری عورت بھی اسکی طرح زخم سہہ رہی ہے۔

بدایوں کی رقیہ نے مذہب کی بنیاد پر اپنے خاندان کو جدا ہوتے دیکھا مگر وہ محسوس کرتی ہے کہ کراچی کی زبیدہ بھی اپنے عزیزواقاب کے لۓ اس کی طرح تڑپ رہی ہے۔

برصغیر کی کروڑوں عورتیں تقسیم کے زخم بھلا کر نئی زندگی شروع کرکے دوستی اور ترقی کا نیا دور دیکھنا چاہتی ہیں کیونکہ اب تک جنگ و جدل، مذہبی جنون اور بربادی کے سوا انہیں کچھ نہیں ملا مگر کیا اس خطے میں ایسا کوئی مرد پیدا ہوا ہے جو اسکی آواز پر لبیک کہے؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:23 2007-06-27 ,ظہيرچغتائی :

    شکر ہے عورتيں ابھی تک وہ مقام نہيں حاصل کر سکيں جو مردوں کو حاصل ہے کيونکہ عورتوں ميں ايک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ بالکل ہی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ميں تو کہتا ہوں کہ عورتوں کو اگر وہی مقام حاصل ہوتا جو مردوں کو ہے تو نجانے کتنی لڑائياں ابھی تک ہو چکی ہوتيں۔ صرف دو عورتوں کو اکٹھا رہنے کو کہيں اور پھر ديکھيں کيا حال کرتی ہيں ايک دوسرے کا۔ ان پڑھ عورتوں سے پڑھی لکھی عورتوں تک، بلا تفريق مذہب، نسل و رنگ، ميں نے ايک دوسرے سے جلنے کا يکساں جذبہ اور مادہ ديکھا ہے۔

  • 2. 13:28 2007-06-27 ,ehjaz afzal :

    نعیمہ احمد صاحبہ آپ بجا فرماتی ہيں۔ عورت جو محسوس کر سکتی ہے وہ مرد نہيں کر سکتا۔ شايد اس ليے کہ دونوں کی فطرت ميں فرق ہے ہالانکہ مرد کو جنم بھی عورت ہی ديتی ہے۔

  • 3. 15:16 2007-06-27 ,اے رضا :

    محترمہ نعيمہ مہجورصاحبہ
    يہاں ميں اختلاف کي اجازت چاہوں گا۔ اندرا گاندھی بھی اسی برصغير کی ايک عورت اور دو بيٹوں کی ماں تھیں۔ طاقتور حکمران ہونے کي حيثيت سے دل بھي بڑا رکھتي تو نفرتيں دھونے کے لیے بلا خوف و خطر بہت کچھ کر سکتي تھيں، ليکن ہوا کيا ؟ نظريہ پاکستان خليج بنگال ميں غرق کر دينے اور ہزار سال کا بدلہ لے لينے کي بات ہوئي۔ اسي برصغير ميں بيٹي جيسي بہو کي زندگي جہنم بنا دينے يا اس غريب کو زندہ جلا مارنے والي بھي عورت ہي ہے۔ ديہي علاقوں ميں مردوں کے باہمي جھگڑوں ميں پس پردہ معاملات ٹھنڈا کرنے کي بجائے جلتي پر تيل ڈال کر بات خون خرابے تک پہنچا دينے والي بھي عورت ہي ہوتي ہے۔ ايسا نہيں کہ مرد معصوم اور بھولا بھالا ہے۔ مرد دس گنا زيادہ جابر اور کہيں زيادہ قصوروار ہے ليکن حقيقت يہ ہے کہ موقع ملنے پر کوئي کم نہيں کرتا۔ جس کا بس چل جائِ وہي زورآور ہے۔

  • 4. 15:50 2007-06-27 ,shahidaakram :

    نعيمہ جی ايک عمدہ اور خوبصورت سوچ والا بلاگ لکھنے پر پہلے تو ميں آپ کی شُکر گُزار ہُوں کہ آپ نے يہ اعداد وشُمار جمع کیے اور ايک عورت ہونے کے ناطے عورت ہی اس کا اندازہ لگا سکتي ہے۔ اوّل تو عورت کو اللہ تعاليٰ نے فطرتًُ رحم دل بنايا ہے اور وہ دوسروں کا درد محسُوس کرتی ہے۔ يہ نہيں کہ مرد ميں يہ صفت نہيں ہوتی ليکن اللہ تعاليٰ نے اُنہيں مضبُوط اور سخت بنايا ہے تا کہ معاملاتِ زندگی کے ہر طرح کے حالات کو سنبھال سکیں۔ ليکن عورت کی يہی صفت اُس کو مردوں سے مُمتاز کرتی ہے کہ معاف کرنا اور دُوسرے کا درد محسُوس کرنا۔ عام بات نہيں بدايوں کی رقيہ ہو يا کراچی کی زبيدہ، دُکھ تو ايک سے ہيں۔ مُجھے تو کسی چور ڈاکُو کو ديکھ کر بھی يہ دُکھ ہوتا ہے کہ اس کی اگر اچھی تربيّت ہو جاتی تو اپنے ماں باپ کے لیے سکھ کا باعث بنتا کہ کوئی بھی ماں اپنی اولاد کے لیے بُرا کبھی نہيں سوچتی۔ کاش کہ مُثبت سوچيں ہمارے دل ميں جگہ بنا پائيں۔


  • 5. 15:58 2007-06-27 ,جنید :

    میرے خیال میں تو مردوں کو بھی فیصلہ سازی کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ فیصلہ کرنے والے گنے چنے ہی ہوتے ہیں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

  • 6. 16:11 2007-06-27 ,Victor Bhana :

    آپ کا مشاہدہ بالکل ٹھيک ہے۔ عورتوں کی کثريت امن پسند ہے اور اپنے بچوں کو سلامت اور ترقی يافتہ ديکھنا چاہتی ہيں۔ مغرب کی عورت اپنے فيصلوں ميں خاصی آزاد ہے پر مردوں کی طرح نہيں، البتہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ مشرقی عورت ابھی تک مرد کی غلام ہے۔ ميرے خيال ميں ضرورت اس بات کی ہے کہ مردوں ميں احساس پيدا ہو کہ عورت بھی بالکل ان ہی کی طرح انسان ہے اور جتنے بھي قابل مرد پيدا ہوئے وہ عورت کي مدد سے تھے۔گرمی کے موسم ميں مرد تو شارٹس پہن سکتے ہيں پر عورت بيچاری کو لپٹی لپيٹی کيوں رہنا پڑتا ہے۔ کيا اسے گرمی نہيں لگتی؟ مطلب احساس۔ عورت کو ہر بات ميں اپنی طرح کا انسان سمجھو تو بات بنے۔

  • 7. 17:58 2007-06-27 ,Sajjadul Hasnain :

    نعيمہ جی
    ميں آپ کی بات سے صد فيصد اتفاق کرتا ہوں مگر عنوان کچھ جچا نہيں۔ يہ آپ سے کس نے کہ ديا کہ تقسيم اور ظلم و ستم کا مذہب سے واسطہ ہوتا ہے۔ اگر نہيں تو پھر يہ کيوں کہا جا رہا ہے کہ عورت مذہبی نہيں۔ مذہبی ہونا علامت ہے امن کی اور عمل صالح کی نہ کہ دہشت گردی کی۔ يقيناً فساد ہوتے ہيں مذہب کی بنياد پر دہشت گردی کو بھی مذہب ہی سے جوڑا جاتا ہے اور ہند و پاک کی تقسيم بھی مذہبی تفريق ہی کا نتيجہ تھی، مگر اب تک کوئی بھی يہ سمجھ نہيں سکا کہ ايک غير مذہبی حرکت کو مذہب سے کيسے جوڑا جاتا ہے۔
    رہی بات کسی مرد کے آگے آنے کی تو مشرف جيسے لوگ اعتدال کے نعرے کے ساتھ آگے تو آ رہے ہيں مگر نتيجہ وہي گھات کے تين پات۔

  • 8. 18:33 2007-06-27 ,محمـد سرفراز :

    کيا اعلٰی موضوع تجويز کيا ہے آپ نے۔ جی ہم سب چاھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان دشمنی بھول کر دوستی کے اسی بندھن ميں بندھ جائيں جو تقسيم ہند سے پہلے تھا۔ کاش يہ ہماری زندگی ميں ہو جائے۔ يورپ ميں کل کے دشمن دوست بن سکتے ہيں تو ہم کيوں نہيں۔ ہم تو آخر ايک خون بھی ہيں۔ ہر کوئی اپنے اپنے ملک ميں خوش رہے اور ويزوں کی پابندياں ختم کردی جايئں اور بس امن اور بھائی چارے کا دور دورہ ہو۔ ليجيے ميں نے ابتداء کردی اور آپ سب سے التجا ہے کہ انتہا آپ سب مرد کرديں۔

  • 9. 4:49 2007-06-28 ,نير :

    واہ محترمہ
    آپ نے تو نہايت آسانی سے صنف نازک کو کنارہ کش کردیا۔ يہ عورت يا مرد نہیں بلکہ چند مفاد پرست لوگ اور سياستدانوں کا کام ہوتا ہے جن کا مفاد ہی اس سے وابستہ ہوتا ہے
    اور يہ عورت کی شکل ميں اندرا، مارگيريٹ، اوما بھارتی کی شکل ميں بھی ظاہر ہوتے رہتے ہيں۔

  • 10. 8:41 2007-06-28 ,Maqbool Abbas :

    ميں بلکل اتفاق کرتا ہوں کہ مذہبی انتہا پسندی ميں عورت کا کوئی کردار نہيں۔ ميرے خيال ميں عورت تو مظلوم ہے۔

  • 11. 9:53 2007-06-28 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    آپ نے بجا فرمايا، کوئی بھی خاتون مذہبی تشدد کی تربيت نہیں ديتی۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ کوئی بھی دين الٰہی نہ تشدد کی ترغيب ديتا ہے اور نہ جھوٹ کي۔
    کيا ہی اچھا ہو اگر ملا بھی سمجھ جائيں اور انسان کی باہمی قربانی اور خدمت کی ترويج کی کوشش کريں۔

  • 12. 12:09 2007-06-28 ,Kashif :

    عورت کے بارے میں آپ کی سوچ اور علم محدود ہے۔ مزيد مطالعے ضروت ہے۔

  • 13. 18:15 2007-06-28 ,نجيب الرحمان سائکو :

    مجھے محترم ظہير چغتائی صاحب اور محترم اے رضا صاحب کے نقطئہ نظر سے مکمل اتفاق ہے کہ ان دونوں معزز صاحبان کا مشاہدہ بغير کسی صنفی امتياز اور تعصب سے پاک ہے اور عين حقيقت پر مبنی ہے-

  • 14. 11:35 2007-07-30 ,محمد اسلم بھٹہ :

    عورت اور مرد مذہبی ہوتے ہیں۔ جنونی کوئی کوئی ہوتا ہے۔ مذہب امن اور بھائی چارگی سکھاتا ہے۔ اور ظلم دہشتگردی۔

鶹 iD

鶹 navigation

鶹 © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔