وردی نہ جائے
آنے والے ہر فوجی حکمران نے محمد ایوب خان سے کم ازکم ایک سبق تو سیکھا۔ یعنی کوئی کچھ بھی کہتا رہے وردی نہیں اتارنی۔
وردی وہ طوطا ہے جس میں پہننے والے کی جان بند ہوتی ہے اور اگر یہ طوطا کسی اور کے رحم و کرم پر ہو تو اس کی کبھی بھی گردن مروڑی جاسکتی ہے۔ اس لئے ایوب خان اعزازی فیلڈ مارشل بننے کے بجائے صدر اور بری فوج کے کمانڈر انچیف بنے رہتے تو پچیس مارچ انیس سو انہتر کو ایک اور میرے عزیز ہم وطنو نہ ہوتا۔
یحیی خان اور ضیا الحق خود اتر گئے مگر وردی نہیں اتاری اور مشرف صاحب تو کہہ ہی چکے ہیں کہ چالیس سال پہننے کے بعد انہیں وردی اب کھال کی طرح محسوس ہوتی ہے۔
ویسے بھی تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے کہ پاکستان پر حکمرانی وہی کرسکتا ہے جس کی کھال نہ صرف موٹی ہو بلکہ یہ عزم بھی ہو کہ چمڑی جائے وردی نہ جائے بصورتِ دیگر حکمران ایوب خان میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
حضور يہ کيا سبق پڑھا رہے ہيں۔ جو تھوڑی بہت اميد ہے بھی ان کی وردی اتارنے کي، وہ بھی اگر انہوں نے يہ بلاگ پڑھ ليا تو ہو گيا کام ہمارا۔ جناب انہيں حوصلہ ديں، مزيد ڈرانے کی ضرورت نہيں۔ اب بھلا ايوب خان کا انجام ياد دلانے کی کيا ضرورت تھي۔
وسعت اللہ صاحب! سچ فرمايا آپ نے کہ وردی حکمرانوں کی کھال ہے کيونکہ اگر وردي کھال نہيں رہے گی تو وکيلوں کا يہ مقولہ ثابت ہوجائے گا کہ”گومشرف گو”۔
وسعت صاحب بلاگ آپ کا بجا ہے مگر آج کل یہاں جو غلط العوام عام ہے کہ ’چاچا وردی لاہندا کيوں نئيں، بن کےمرد وکھاندا کيوں نئيں، اپنا قول نباھندا کيوں نئيں، لے کے پنشن گھر جاندا کيوں نئيں‘۔ يا پھر ’کھال اتارو ملک سنوارو‘ مزيد یہ کہ نعرہ ’فوج موج ہی موج‘۔ اور آخر کار بھيروي ميں جو الاپ ہو رہا ہے کہ اس بھري دنيا ميں کوئی قاف بھی ہمارا نہ ہوا۔