| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جرنل اور جنرل

وسعت اللہ خان | 2007-03-01 ،12:24

تقریباً اس وقت جب سندھ بھر سے پولیس کی ضبط کردہ بسوں، ویگنوں، سوزوکیوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں میں ناظمین، ارکانِ پارلیمان و صوبائی اسمبلی اور انتظامی افسران اپنے اپنے حامیوں، قرض زدہ ہاریوں اور ماتحت اہلکاروں کو ڈھو ڈھو کر لاڑکانے کی جلسہ گاہ میں جمع کر چکے تھے۔
blo_wusat_general_150.jpg

پونے دو سو میل جنوب میں واقع کراچی پریس کلب میں سندھی زبان کے بڑے ادیب اور کالم نگار امر جلیل کو تاحیات رکنیت پیش کرنے کے لیے مختلف مکاتیب فکر کے سو کے لگ بھگ لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں یا بسوں اور ویگنوں میں کرایہ دے کر پہنچے ہوئے تھے۔

جنرل پرویز مشرف اور جرنل امر جلیل ایک ہی وقت میں الگ الگ پل کی تعمیر کے فیتے کاٹ رہے تھے۔

جس وقت صدر مشرف لاڑکانہ کے ہزاروں کے مجمع کو دیکھ کر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ انہوں نے سندھ کے ایک اہم سیاسی قلعے پر جھنڈا گاڑ دیا ہے، اس وقت کراچی پریس کلب کے صدر مٹھی بھر حاظرین کو یہ بتا رہے تھے کہ یہ وہ چاردیواری ہے جس میں ہم نے بھٹو اور ضیا سمیت کسی آمر کو نہیں گھسنے دیا۔

ایک طرف صدر مشرف جلسے سے کہہ رہے تھے کہ جتنی بھی سویلین حکومتیں آئی ہیں انہوں نے صرف اپنی جیبیں بھری ہیں۔ لیکن ان کی حکومت بالخصوص ارباب رحیم کی حکومت نے صوبے کے لیے جو ترقیاتی کام کیا ہے وہ انتخابات میں عوام کے بھرپور اعتماد کی صورت میں دنیا دیکھے گی۔

دوسری جانب امر جلیل کراچی پریس کلب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہاں پر بیٹھنے والوں کو اندرونِ سندھ کی چیخ بھی سننی چاہیے جہاں میجروں اور کرنلوں کو دعوتیں کھلانے، تحائف دینے اور تیتر کا شکار کرانے والے سرداروں اور وڈیروں نے لوگوں کو اتنی بری طرح سیاسی، اقتصادی اور سماجی شکنجے میں جکڑ لیا ہے کہ سانس لینا مشکل ہے۔

تالیاں لاڑکانے میں بھی بج رہی تھیں اور کراچی پریس کلب میں بھی۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 19:02 2007-03-01 ,Dr.M.Bhaijee :

    لگتا ہے کہ خا نہ پر ی کيلۓ آپ نے کا لم لکھ دياـ بقو ل شا عر کچھ نہ سمجھے خدا کرے کو ءی

  • 2. 5:36 2007-03-02 ,جاويد اقبال ملک :

    وسعت اللہ خان صاحب آپ نے ايک مرتبہ پھر آوازحق بلند کی اور جرنيلی طاقتوں کی اصل حقيقت بتا دی ۔ہمارے ملک ميں ہی ايسا ہو رہا ہے۔ جو بھی حکمران پارٹی ہوتی ہے وہ اسی طرح سرکاری جلسوں کو کامياب بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہيں ۔اس وقت ہمارے ملک ميں عوام دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہو چکے ہيں ، مگر حکمرانوں کو کوئی فکر نہيں-

  • 3. 5:51 2007-03-02 ,Mian Asif Mahmood, MD-U.S.A :

    برادرم وسعت اللہ خان صاحب
    اسلام و عليکم
    بقول غالب
    حيران ہوں دل کو روؤں کہ پيٹوں جگر کو ميں
    مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو ميں
    مجھے يقين ہے کراچی پريس کلب ميں موجود مقررين اور سو با ضمير اور حساس انسانوں کا وزن لاڑکانے کے ہزاروں کے تعاداد ميں تالی بجانے والے بے حس ملازمين اور افراد سے زيادہ ہو گا کے بقول حبيب جالب
    انکی فکر سو گئ اميد کی ہر کرن ضلمتوں ميں کھو گئی
    مجھ کو يہ يقين ہے کہ ان کی موت ہو گئ
    وسعت بھائی جانے دو
    کريدتے ہو کيوں راکھ جستجو کيا ہے؟؟
    آپ اپنا خيال رکھيے گا دعا گو
    مياں آصف محمود
    واشنگٹن
    رياست ہاے متحدہ امريکہ


  • 4. 7:01 2007-03-02 ,Muhammad Azhar :

    ہر کسی کی اپنی مفاد کی سياست ہے اور عوام ہر جگہ بيوقوف۔ مشرف صاحب کے بڑے بڑے دعوے اپنی جگہ دوسری طرف امريکہ ميں سفيرصاہب رو رہے ہیں کہ امداد بند ہوگی تو پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ يہ جلسے جلوس صرف لوٹوں اور اپنے خوشامدیوں کے لیے ووٹ مانگنے کے لیے ہیں۔

  • 5. 7:38 2007-03-02 ,طارق :

    آخری جملے پر مجھے وہ دن ياد آنے لگے جب لوگ خوشی کے موقعے پر سہرے گانے والوں کو بلاتے تھے ان ميں سے ايک سہرا گا تے تو دوسرے اس سھرے پر تالياں بجا تے تھے وہ رسم اب دم توڑ چکی ہے شايد اس لۓ کہ اب پوری قوم کو تالياں بجانے آگيا ہے، پہلے چار ديواری کے اندر اب کھلے ميدانوں ميں ہوتا ہے!

  • 6. 8:54 2007-03-02 ,Mahmood ul hassan :

    General اور journal کا اچھا combination ہے اور بروقت بھی کيونکہ اب فوج کوصرف ISPR پر ہی انحصار نہيں کرنا چاہيے۔ دوسرے تمام شعبوں جيسے حکومت' صحت' تعليم' صنعت' تعميرات' ہاؤسنگ اور ٹرانسپورٹ وغيرہ ميں فوج اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ ملٹری کورٹس کی وجہ سے فوج کو عدليہ کا بھی خاصا تجربہ ہے اب صحافت کو بھی اورٹيک کرلينا چاہۓ کيونکہ يہ فوج کی عزت اور ناموس کا مسئلہ ہے اور تنخوادار صحافی اسے قائم رکھنے ميں بالکل ناکام ہوچکے ہيں۔
    وہ لکھو بس جو بھی امير شہر کہے
    جو کہتے ہيں درد کے مارے مت لکھو

  • 7. 10:52 2007-03-02 ,عثمان ارشد :

    اچھی تصوير کشی کی گئ ہے- ليکن يہ بات ياد رکھنے کی ہے کہ ہمارے ملک ميں اگر ملٹری کا کردار اتنا اچھا نہيں رہا تو شايد صحافيوں نے بھی کوئ اچھا کردار ادا نہيں کيا- بہر حال يہاں پر تو ايک صحافی ہی اپنی برادری کی بڑائ ميں مصروف ہے ليکن ہم تو ملٹری سے کو ئ واسطہ نہ ہونے کے باوجود اپنے صدر صاحب کی صلاحيتون کے معترف ہيں-

  • 8. 12:00 2007-03-02 ,Sajjadul Hasnain :

    وسعت صاحب
    سو لوگوں کی تالياں اور ہزاروں کے مجموعے کی تاليوں ميں بڑا فرق ہوتا ہے مگر اخلاص سنجيدگی محنت عوام دوستی صحافت وادب کا حصہ ہيں جبکہ سياست ميں يہ سب کچھ لا يعنی ہوتا ہے -لاڑکانہ کے جلسے ميں تاليوں کی گڑگڑاہٹ کان پھاڑنے والی تھی جبکہ کراچی پريس کلب ميں جرنل نے جو بات کہی وہ ان ہزاروں لوگوں کی تاليوں سے کہيں زيادہ زور دار ہے اور طاقتور بھی _کتنا اہم يہ عزم کہ اس چھوٹی سی چار ديواری ميں کسی آمر کو نہ گھسنے ديا جاءے يہ عزم مصمم ان آمروں کے لءے نوشتہ ديوار ہے جو طاقت کے بل بوتے پر اليکشن جيت جاتے ہيں پريس کی آزادی کل کو ايک ايسا انقلاب بن جاءے گی جو انقلاب فرانس و روس سے کہيں زيادہ تہلکہ خيز ہوگا اور يہی انقلاب مملکت خدا داد کو حقيقت کی شکل دے گا-
    خير انديش سجاد الحسنين حيدرآباد دکن

  • 9. 12:05 2007-03-02 ,shahidaakram :

    وُسعت بھائی ہم سب دعا گو ہيں آپ کی خيريت کے لۓ کہ کہيں اتنی دُور بيٹھ کر بھی کسی کو آپ کی خيريت نا مطلوب ہو جائے ذرا ہتھ ہولا رکھا کريں جنرل لوگوں کے لۓ۔ جرنل لوگوں کی زندگی عام طور پر کوئی خاص اہميّت نہيں رکھا کرتي ’جنرل‘ سي ہي ہوتي ہے سو اپنے لۓ اور اپنے خير خواہوں کے لۓ کوئی مُشکل نا کھڑي کروا لينا کہيں مشورہ ہے خير خواہانہ اُميد ہے غور ضرور کريں گے
    دعائيں سب کے حفظ و امان ميں رہنے کے لۓ
    مع السلام
    شاہدہ اکرم

鶹 iD

鶹 navigation

鶹 © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔