| بلاگز | اگلا بلاگ >>

میری شلپا شیٹی

وسعت اللہ خان | 2007-01-18 ،11:36

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں وسعت اللہ خان ہوں، ملکھا سنگھ یا رام گوپال یادو۔ میری ذہنیت تو جنوبی ایشائی ہی ہے۔ یہ راز مجھ پر اس وقت آشکار ہوا جب میں پہلی مرتبہ مئی انیس سو اکیانوے میں لندن پہنچا۔
blo_wusat_shilpa180x150.jpg

بیزواٹر کے علاقے میں مٹرگشتی کے دوران میں نے دیکھا کہ کوئی گورا ٹین ایجر ایک جنوبی ایشائی نقش ونگار کی سانولی کی کمر میں ہاتھ ڈالے آئس کریم کھاتا ہوا اپنی تھوتھنی اس لڑکی کے گالوں سے رگڑتا ہوا جارھا ہے۔ اپنے علاقے کی لڑکی کی بے شرمی اور گورے کی جرات دیکھ کر میرے تن بدن میں ایسی آگ لگی جیسے بہن کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر لگ سکتی ہے۔

پھر ایک دن میں نے لیسٹر اسکوائر میں ٹہلتے ٹہلتے ہپوڈروم ڈسکو کے سامنے دیکھا کہ ٹین ایجرز کی قطار لگی ہوئی ہے۔ قطار میں کھڑی ایک گوری لڑکی کی پنڈلیاں دیکھ کر میری آنکھوں میں وہی للچائی ہوئی چمک آئی جو نئے نئے امیگرینٹس یا سیاحوں کی آنکھوں میں عموماً دیکھی جاسکتی ہے۔ ن جانے اس لڑکی کو کب احساس ہوگیا کہ کوئی اسکی پنڈلیوں کو نگاہوں سے ڈرل کررھا ہے۔ جیسے ہی اس نے مجھے پلٹ کر دیکھا میں نے خود کو چور محسوس کرتے ہوئے آگے چلنا شروع کردیا۔

پھراچانک میری نگاہ ایک ایسے منظر پر پڑی کہ پنڈلیوں کی ٹھرک غصے کی آگ میں تبدیل ہوگئی۔ ایک بنچ پر ایک کالا میرے ہی علاقے کی ایک لڑکی کو بازؤوں میں لئے منہ ماری کررھا تھا۔ میں نے اس طریقے سے دونوں کو گھور کر دیکھا کہ دونوں نے ایک ساتھ کہا: ’واٹ؟؟؟‘ میں نے بوکھلا کر کہا: ’نتھنگ‘ اور نکل لیا۔ مڑ کر دیکھا تو منہ ماری اسی طرح جاری تھی۔

میں دل ہی دل میں بڑبڑا رھا تھا۔ اسے کیا سوجھی یہ سب برسرِ عام کرنے کی اور اگر یہ سب کرنا ہی تھا تو کیا کالا ہی ملا تھا۔۔۔۔۔

آیا یہ میرا احساسِ محرومی تھا یا کالوں اور گوروں کو اپنے علاقے کی لڑکیوں کے ساتھ گھومتے دیکھ کر میرے اندر کی نسل پرستی بیدار ہوگئی تھی۔ یا یہ احساس کہ ان لڑکیوں کو ذرا بھی مشرقی اقدار کا پاس نہیں۔ کیا اگر یہی لڑکی کراچی یا دلی میں کسی لڑکے کے ساتھ جارہی ہوتی تب بھی میرا یہی ردِ عمل ہوتا۔ کیا میرا اسے چھیڑنے یا ہاتھ پکڑنے کو جی نہ چاہتا اور اگر میرا ردِ عمل کسی غیرت کے سبب ہے تو اسوقت مجھے کیا ہوا تھا جب ایک گوری کی پنڈلی میں میری نظریں گڑ گئی تھیں۔

یہ باتیں شائد اس لئے یاد آرہی ہیں کہ مجھے بھی شلپا شیٹھی اچھی لگتی ہے مگر اسے اسکرین پر دیکھ کر جو لہریں میرے دل میں اٹھتی ہیں وہ کسی گورے یا کالے کے دل میں اٹھیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔

میں پٹھانوں پر بنے ہوئے لطیفے مزے لے لے کر سنتا ہوں اور سناتا ہوں۔ سکھوں کے لطیفے میں دوستوں کو ایس ایم ایس کرتا ہوں لیکن میں کسی غیر کو اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ کسی پٹھان یا سکھ کا مضحکہ اڑائے یا انکے بارے میں کوئی گھٹیا ریمارک دے۔

ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم ایسے ہی ہیں؟ جی ہاں ہم ایسے ہیں ہیں۔ جس کو جو بگاڑنا ہو بگاڑ لے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:09 2007-01-18 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    وسعت اللہ خان صاحب اسلام و عليکم جيتے رہيں، تندرست رہيں، آپ کی تحريروں ميں آپکی قومی حميّت کا ہونا جھلکتا ہے۔ اپنی عزت غيروں کے ہاتھوں کھيلی جاتی ديکھ کر جس طرح آپ نے محسوس کي، وہ ٹھيک اور نيک جذبہ تھا اور گوری گداز ٹانگوں کی طرف اٹھی نظر اور اس خواہش کا اظہار ضابطہ تحريرير ميں لانا آپ کی بہادری اور سچائی کا ثبوت ورنہ آپ کہہ سکتے تھے کہ ميں تو ديکھ رہا تھا لڑکی کی سٹاکنگ اور جلد کا فرق کہاں نماياں ہوتا ہے۔ اللہ آپ کا نگہبان ہو۔

  • 2. 13:57 2007-01-18 ,shabnam :

    وسعت صاحب، میں سو فیصد آپ کی تائید کرتی ہوں۔

  • 3. 14:01 2007-01-18 ,zeeshan haider :

    صحیح بات ہے، ہونا بھی یہی چاہیے اور میں بالکل اتفاق کرتا ہوں۔

  • 4. 14:23 2007-01-18 ,اسد خان :

    گھر کی مُرغی دال برابر

  • 5. 23:20 2007-01-18 ,صديق :

    واقعی احساس کو لفظوں ميں پرويا ہے۔ سو فيصد صحيح۔۔

  • 6. 23:30 2007-01-18 ,زيشان عباسی :

    ميں وسعت اللہ بھائی سے بالکل اتفاق کرتا ہوں۔

  • 7. 23:34 2007-01-18 ,Alan Khan :

    بالکل صحیح۔ میں بہت عرصہ پہلے جب پہلی بار پاکستان سے باہر آیا تھا تو میرا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

  • 8. 2:29 2007-01-19 ,اے رضا ، ابوظبی :

    شِلپا شيٹي؟
    يہ آپ نہيں ہو سکتے۔۔۔يہ بتائیے حسن مجتبٰی صاحب سےگزشتہ ملاقات کب ہوئي آپ کی؟

  • 9. 2:51 2007-01-19 ,تنوير :

    جی کيا کہنی آپ کی وسعت بھائی! دل کی بات کہہ دی آپ نے تو۔

  • 10. 3:21 2007-01-19 ,Anonymous :

    واہ صاحب واہ، بہت خوب، کچھ اسی طرح کے خیالات میرے بھی ہیں۔ لیکن شاید آپ ابھی بھی رعایت کر گئے ہیں۔ ایسا نہ کیا کریں۔ شکریہ

  • 11. 3:25 2007-01-19 ,شخ محمد یو نس :

    بہت زبردست جناب وسعت اللہ خان صاحب، کچھ اسی طرح کے خیالات میرے بھی ہیں۔ نوٹ فرما لیجیئے۔ شکریہ۔

  • 12. 4:55 2007-01-19 ,طارق :

    ميں آپ کے بلاگ پڑھتا ہوں اور آپ کے لکھنے کے انداز سے کبھی کبھی چہرے پر مسکراہٹ بھی آجاتی ہے ليکن آج آپ نے مجبور کرديا ، ہم لوگ اپنی تاريخ ثقافت اور اخلاقيات سے مالا مال ہيں پھر ہم کس طرح ان لوگوں بداخلاقی برداشت کرسکتے ہيں۔ وسعت صاحب زندہ باد

  • 13. 6:04 2007-01-19 ,عبدالسلام خلیفہ :

    شاید یہ نسل پرستی ہے، یا شاید نسل پرستی کا رد عمل ہے، یا احساس مظلومیت ہے، یا پھر مشرقی اقدار پر مکمل یقین ہے۔

  • 14. 7:09 2007-01-19 , م فيصل :

    يہ بات تو طے ہے کے شلپا کے ساتھ برا ہوا ہے ليکن شلپا کو اس طرح کے پروگرام ميں جانے کی کیا پڑي تھي؟

  • 15. 9:07 2007-01-19 ,Tahir :

    یہ ہمارے دوہرے معیار رکھنے کی نشانی ہے۔

  • 16. 9:15 2007-01-19 ,صالحہ ترنم :

    وسعت صاحب آپ ہندوستانیوں کو بھی اپنی قوم سمجھتے ہیں یہ جان کر خوشی ہوئی۔ آپ کے بلاگس بہت پسند آتے ہیں ۔

  • 17. 9:31 2007-01-19 ,SALMAN :

    آپ بالکل صحیح کہتے ہیں۔

  • 18. 9:54 2007-01-19 ,ahmed bilal :

    خدا آپ کو خوش رکھے۔ آپ نے تو دل کی بات کہہ دی۔۔۔

  • 19. 11:01 2007-01-19 ,ساجد محمود :

    محترم وسعت اللہ خان صاحب اسلام عليکم ! آپ کو شايد معاملے کی صحيح سمجھ نہيں آئی يا جان بوجھ کر دوسری طرف لے گئے ہيں۔ يہاں معاملہ تعصب کا ہے نہ کہ وہ جس طرف وسعت صاحب اشارہ کر رہے ہيں۔ ورنہ اعتراض کی تو بات ہی کوئی نہ ہوتی کيونکہ ’بگ برادر‘ پروگرام ہی ايسا ہے جس ميں فلرٹ کیا جاتا ہے۔ بات اس وقت بگڑی جب شلپا کو ذاتی اور نسلی تضحيک کی گئی۔ (’بناؤٹی‘ شلپا کو ’جھونپڑ پٹی میں رہنے کی ضرورت ہے۔‘’شلپا اپنے وطن واپس جاؤ‘۔) لائیڈ نے یہ بھی کہا کہ شلپا انگریزی تک ٹھیک سے نہیں بول سکتي۔گزشتہ ویک اینڈ کے دوران سابق مس برطانیہ ڈینئل لائیڈ اور ایس کلب کی سابق اداکارہ جُو نے شلپا کے تلفظ کی ادائیگی کا مذاق اڑایا۔ جیڈ گوڈی، ڈینیئل لائڈ اور جو او میرا نے پروگرام کے دوران شلپا کے ہندوستانی لہجے کا بھی مذاق اڑایا۔ او میرا نے کہا کہ انڈین افراد پتلے ہوتے ہیں کیونکہ وہ کچی غذہ کھا کھا کر بیمار رہتےہیں۔ جیڈ کی والدہ جیکی شو کے دوران شلپا کو ’انڈین‘ کہہ کر بلاتی رہیں۔ انہوں نے یہ شکایت بھی کی تھی کہ شلپا نے ان کے کھانے کو ہاتھ سے چھوا تھا۔ سابق بیوٹی کوئین ڈینیئل لائیڈ نے کہا کہ شلپا کے ہاتھ نجانے کتنے گندے ہوں گے۔ یہ مکافات عمل بھی ہے۔ يہ باتيں سن کے ہميں نہيں بلکہ ہر کسی کو برا لگ سکتا ہے۔ يہ سب باتيں بھارت ميں خاص طور پر اور ہمارے ہاں عام طور پر ’نچلی ذات‘ والوں کے لیے استمعال کی جاتی ہيں۔ اس وقت ہميں شرم نہيں آتی جب لوگوں کے چھونے سے ہم اور ہمارے کھانے پليد ہو جاتے ہيں؟
    انگريزی ہم لوگ بڑے شوق سے بولتے ہيں اور ميرے خيال ميں شلپا بہت اچھی بولتی ہوگی۔ ليکن جو چيز ان کی ہے وہ ان کی ہی رہے گی۔ جب آپ اپنا آپ بھول جائيں تو لوگ اسی طرح مذاق اڑايا کرتے ہيں۔

  • 20. 11:11 2007-01-19 ,haroon :

    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ وسعت خان صاحب
    آپ کیوں اداس پھرتے ہو یوں سردیوں کی شاموں میں؟
    اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔۔

  • 21. 12:19 2007-01-19 ,Zeeshan :

    بہت اچھے خان صاحب! آپ نے تو میرے دل کی باتیں کہہ ڈالیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا جب میں پہلی بار لندن گیا۔

  • 22. 14:19 2007-01-19 ,محمد اصغر کھوکھر :

    غیر ممالک میں جا کر اپنی ہم وطن (یا ہم علاقہ) خواتین کے بارے میں آپکےغیرت بھرے احساسات کےاس فراخدالانہ اظہار سے خیال بے اختیار ہمارے اپنے ملک کے ماحول کی طرف جاتا ہے کہ جدیدیت کی نمائش کے باؤجود حالات کافی حد تک قابو میں ہیں کہ مغرب کی طرح فحاشی عوامی جگہوں سے ابھی دور ہے۔ لیکن کب تک؟

  • 23. 15:51 2007-01-19 , اختر پرويز :

    اسلام عليکم
    آپ بہت اچھا لکھتے ہیں۔

  • 24. 16:23 2007-01-19 ,منصور رانا :

    اجی شلپا کی بات کو زیادہ ہی ہوا دی جا رہی ہے۔ جو کچھ اس سے کہا گیا وہ سچ ہی تو تھا۔۔۔

    یہاں ہم بھی تو فرنگوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ سب آج کی سچائی ہے۔

鶹 iD

鶹 navigation

鶹 © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔