طاقتور کی معصومیت
ہندوستان یا پاکستان میں کوئی طاقتور جاگیردار، صنعتکار، وڈیرہ، سیاستداں یا خان کرپشن، اقربا پروری یا سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات تو براہ راست اپنے سینے پر جھیل جاتا ہے لیکن آپ نے شاید ہی سنا ہو کہ ان میں سے کسی نے کبھی مسلح ڈاکے میں حصہ لیا ہو یا گینگ ریپ یا انفرادی بے حرمتی میں ملوث رہا ہو یا کسی کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا ہو۔
مگر اس کے لئے ہر طرح سے طاقتور اور بااثر ہونا بہت ضروری ہے۔
تو کیا یہ کردار معصوم ہوتے ہیں یا پھر اس طرح کے اخلاقی جرائم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا ان پر ہمیشہ اس ضمن میں جھوٹے الزامات ہی لگتے ہیں۔حالانکہ یہ بھی میری اور آپ ہی کی طرح گوشت پوست، جذبات اور نیکی اور بدی کا مرکب ہوتے ہیں۔
مجھ پر فردِ جرم عائد ہونے اور ان پر عائد نہ ہونے کے درمیان صرف ایک فرق ہے اور وہ ایسا فرق ہے جو میرے جرم اور انکی معصومیت کے درمیان ہمیشہ باقی رہے گا۔ یعنی ایک وفادار ملازم کے ہونے یا نہ ہونے کا فرق۔ جو اپنے مالک کے کئے ہوئے ریپ، اغوا، ڈاکے یا قتل کا الزام اپنے سر لے لے۔
اس قربانی کے عوض مالک نہ صرف اسکے اہلِ خانہ کی پوری کفالت کرتا ہے بلکہ جب وہ دو چار برس جیل میں گزار کے ضمانت پر یا بری ہونے کی صورت میں رہا ہوتا ہے تو مالک اور اسکے دیگر حواریوں کی نگاہ میں اس کا رتبہ اور بڑھ جاتا ہے۔
جانے کیوں مجھے باجوڑ کے واقعات سن کر یہ بات یاد آ گئی۔
تبصرےتبصرہ کریں
کيا مطلب ہے آپ کا، وسعت صاحب؟
آپ خدانخواستہ کہيں ہماری اِتنی محترم اور معزز فوج کو امريکہ کا ملازم گرداننے کی کوشش تو نہيں کر رہے ؟
صاب جی ایک پشتو کہاوت ہے کہ جس بلا سے جان نہ چھوٹے اس کے سامنے زیادہ ہنسا کرو (خوشی کا اظہار کیا کرو) ۔ اور ہمارے سامنے تو ایسی بلا آئی ہے کہ ہم نے تو اپنی شناخت ہی بدل دی ہے۔
ميرے خيال ميں تو پاکستان کی مثال امريکہ کی انتہائی فرمانبردار مشرقی بيوی کی ہے جو اپنی ہر خواہش کی قربانی دے کر اپنے شوہر کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو بلا چوں و چرا تسليم کر ليتی ہے۔
محترمی ومکری وسعت ا للہ خان صاحب
اسلام عليکم ! آپ نے ايک مرتبہ پھر خو بصورت بلاگ لکھ کر ہمارے دل موہ ليئے۔ وہ آپ نے پنجابی کی کہاوت تو سن رکھی ہوگی کہ ’ 20/7 = 140 نہيں بلکہ 100 ہوتا ہے‘ يعنی وہ جو چاہے کر سکتا ہے، کہہ سکتا ہے کہلوا سکتا ہے۔ اب آپ ديکھيں ناں امريکہ طاقتور ہے تو اس نے ساری دنيا کو غلام بنا رکھا ہے۔ ہمارے صدر مشرف کا زور صرف پاکستان تک چلتا ہے تو اپنی فوج کے ذريعے جہاں چاہتے ہيں آپريشن شروع کر ديتے ہيں۔ خفيہ والے اپنے زور و بازو پر کسی بھی شہری کو اٹھا ليتے ہيں اور پھر کچھ پتہ نہيں چلتا۔ انصاف کا تو صرف نام رہ گيا ہے ۔ بس اللہ خير کرے۔
ظلم کی بات تو يہ ہے کہ قربانی ملازم نے نہيں دی اس کے گھر والوں نے دی اور ظلم کی بات کہ ملازم کو اس قربانی کا احساس بھی نہيں کہ اس کے گھر پر کيا بيت رہی ہے۔
وسعت بھائی آپ کے اس بلاگ کو پڑھنے کے شروع کی لائنوں کے بعد ہی ايک بات دماغ ميں آئی کہ کيا آپ کی سمجھ ميں نہيں آيا کہ اس سب کے پيچھے کيا ہے؟ کون ہے؟ يہ بات ظاہر ہے کيا ہم سب نہيں جانتے کہ جب خادم موجود ہوں تو مالک کو خود کوئی بھی کام کرنے کی کيا ضرورت ہے۔ سو ان بڑے وڈيروں کی پانچوں گھی ميں اور سر کڑ اہی ميں کيوں نہ ہو۔ جب تک ہمارے معاشرے ميں غربت اور غريب موجود ہيں يہ سب بالکل اسی طرح ہوتا رہے گا ہم اور آپ جيسے لوگ سوائے دکھی ہونے کے نہ پہلے کبھی کچھ کر پائے تھے نہ اب کر پائيں گے۔ غريب مزارعے يونہی ان جاگير داروں اور سرداروں کے مظالم کی بھينٹ چڑھتے رہيں گے اور وسعت بھائی يہی فرق ہے ميرے اور آپ کے اور ہم جيسوں کے جرموں کے ہونے يا نہ ہونے کے در ميان۔ سو طاقتور کی معصوميت صاف ظاہر ہے کيونکہ معصوم لوگ تو کبھی کچھ کر ہی نہيں سکتے تو باجوڑ کے لوگ اور ان کے اردگرد کے لوگ بھی ايسے کسی حواری کے ہی دماغ کے اُلٹ پھير کا شکار ہوئے ہوں۔ کيا کہا جا سکتا ہے، بڑے لوگوں کی کمی تو نہيں ہے جہاں ميں۔ بس کيا کريں دماغ کو اُلجھانے کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی تو نہيں۔
دعائيں سب کی راستگی کے لئے
دعاگو
شاہدہ اکرم
واہ جی واہ! خان صاحب سلام مسنون۔ يہ کارروائي اپنے سر ليتے بھی ہيں، معاوضے کے ملنے کا تحريری ثبوت بھی ديتے ہيں۔ ديکھ کيسی بہادری ہے اور دوسری طرف کس درجے کی بےحسی۔